Thursday 7 September 2017

کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز



میں وضاحت کے لئے چند الفاظ لکھنا چاہتا ہوں جو کوشش کے باوجود کچھ طویل ہوں گے لیکن کوشش کروں گا کے تحریر اتنی طوالت اختیار نہ کرے کہ خود ایک کتاب بن جائے۔ اس لئے بہت سے واقعات کی معلومات ہونے کے باوجود صرف ضروری واقعات کا ذکر کرنے مناسب سمجھوں گا جو حقیقت کو کسی حد تک واضح کر سکیں۔
انیس سو سینتالیس میںجو مسلح بغاوت کی گئی بد قسمتی سے اسکا اختتام وہ نہ ہو سکا جو اسکے شروع کرنے والوں نے سوچا تھا۔اس بغاوت کا مقصد اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے مسلح جدوجہد تھا کیونکہ سیاسی طور پر کی گئی جدوجہد سے وہ حقوق نہیں دیے گئے۔اسکی کی شروع کرنے کی بہت سے وجوہات ہیں جس میں سے چند کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
نمر1:۔۔۔۔ جب ڈوگرہ نے دوسری جنگ عظیم میں شرکت کر کے واپس آئے ہزاروں سابق فوجی سپاہیوں اور آفیسران کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی ریاستی فوج کا حصہ نہیں بنایا جبکہ دوسری طرف ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے فوجی افراد کو قبولیت بخشی۔ اس وجہ سے سابقہ برٹش دور کے مسلم فوجی سپاہی اور آفیسران ڈوگرہ سے نالاں اور بے چین تھے۔اور سیاسی لیڈرشپ کا بھی خیال تھا کہ ڈوگرہ نے یہ حکمت عملی اس لئے اپنائی ہوئی ہے تاکہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھے۔
نمبر2:۔۔۔۔۔ ڈوگرہ نے کئی مسلمان سرکاری ملازمین کو بھی ملازمتوں سے فارغ کر کے انکی جگہ ہندو ملازمین بھرتی کیے تھے تاکہ حکومتی امور میں اپنی گرفت مضبوط رکھ سکے۔اس اقدام سے سول مسلم آبادی میں بھی بے چینی پائی جاتی تھی۔ یاد رہے ان ملازمین کی بحالی کے حوالے سے امیر شریعت نے ڈوگرہ کے خلاف احتجاج بھی کیے تھے۔
نمبر3:۔۔۔۔۔ڈوگرہ کے باقی ظلم و ستم کے علاوہ درج بالا اقدامات جو قیام پاکستان کے اعلان کے بعد کیے گئے نے مسلم آبادی کو اس خدشے میں مبتلا کر دیا تھا کہ کہیں مہاراجہ اندرون خانہ تقسیم برصغیر کے فلسفے کے تحت انڈیا سے الحاق نہ کر بیٹھے۔مہاراجہ ہری سنگھ کا سٹینڈ سٹل معاہدا پاکستان کے منظور کیا ہوا تھا لیکن مہاراجہ نے اپنا وزیر اعظم جو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے اپنا ایک موقف رکھتا تھا اسکو انڈین لابی کی منشا کے مطابق تبدیل کر کے مسلمانوں کے اس خدشے کو مزید تقویت دی۔
نمبر 4:۔۔۔ریاست کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ بیرونی پیش رفت مثلا حیدرآباد دکن اور ریاست جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کو انڈیا کیطرف سے تسلیم نہ کرنا،انڈیا کا سٹینڈ سٹل معاہدا تسلیم کرنے کے بجائے ڈوگرہ پر الحاق کا دباو قائم کرنا اور ڈوگرہ کا اپنا وزیراعظم جو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے ایک خاص موقف رکھتا تھا کو برخاست کرنے کے ریاست کے مسلمانوں کے اس شک کو یقین میں بدل دیا کہ ریاست مستقبل میں انڈیا کا ہی حصہ بن سکتی ہے۔
چنانچہ درج بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں ایک طرف برٹش آرمی سے ریٹائرڈ فوجی آفیسران جو ریاست کا پشتنی سرٹیفکیٹ رکھتے تھے نے مسلحہ جد و جہد شروع کرنے کے لئے آپس میں اور دیگر سیاسی لیڈرشپ سے مشاورت شروع کی تو دوسری طرف سیاسی لیڈرشپ نے بھی آپس میں مشاورت شروع کی اور آخر کار سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی۔ اس الحاق کی قرارداد کا مقصد قطع اپنی شناخت ختم کرتے ہوئے پاکستان میں ضم ہونا نہیں تھا بلکہ اس الحاق کے خدوخال طے کرنا مستقبل پر رکھا گیا تھا (جو آج بھی اسی صورتحال میں ہے جسے پاکستان ھے بھی اپنے آئین کے آرٹیکل 257 کے ساتھ تحفظ دیا ہوا ہے)۔
ابھی ریاست کی سیاسی جز وجہد پر یقین رکھنے والے اور مسلحہ جدوجہد کی رائے رکھنے والے ابھی باہمی مشاورت میں ہی مصروف تھے جسکے لئے جگہ جگہ میٹنگز اور جلسے کو رہے تھے جیسے جون 1947 میں مولوی اقبال صاحب کے گھر ہونے والی میٹنگ، 13 اگست 1947 کو باغ کے مقام پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کا جلوس اور سید حسن شاہ گردیزی کا خطاب، 15 اگست راولاکوٹ کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور جلوس، 19 اگست عید والے دن دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور راولاکوٹ کے مقام پر جلسہ، 23 اگست نیلہ بٹ کے مقام پرسید شمشاد حسن شاۃ کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ اور اس میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے اور باغ جلسے میں شمولیت کا قرآن پر حلف، 26 اگست ہڈا باڑی کے مقام پر ملٹری کیمپ کے سامنے ہونے والا جلسہ وغیرہ شامل ہیں جس پر پہلی مرتبہ ڈوگرہ فوج نے عام جلوس پر گولی چلائی اور کئی مسلمان زخمی اور قابل خان کے علاوہ کئی دوسرے مسلمان بھی شہید ہوئے اور اسی طرح ڈوگرہ فوج نے ہاڑی گہل کے مقام پر بھی فائرنگ کر کے دو افراد کو شہید کیا جس میں سے ایک شہید ہونے والے امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم کے بھائی نور عالم بھی شامل تھے۔
۔ایک طرف یہ باہمی مشاورت ابھی چل رہی تھی اور ابھی مسح جد وجہد شروع کرنے کا کسی قسم کا کوئی اجتماعی فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ایک خاص واقع پیش آئے وہ یہ تھا کہ ڈوگرہ فورس کا ایک کانوائے دھیرکوٹ کی طرف سے باغ جا رہا تھا کہ راسے میں جھالہ کے مقام پر مولوی محمد بخش مرحوم اور سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم نے اس کانوائے پر فائرنگ کی۔ یہ پہلا فائرتھا جو ڈوگرہ فورس پر انتقام کی نیت سے کیا گیا۔ اسکے ردعمل میں ڈوگرہ فورس نے سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم کے گھرکو نقصان پہنچائے اور بتلایا جاتا ہے کہ ان کے گھر جلایا گیا۔ جسکے ردعمل میں میں علاقے کے لوگوں نے ڈوگرہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔ جوابی کاروائی میں مسلمان بھی شہید ہوئے۔ ڈوگرہ نے اس حملے کی خبر پر اپنی فورس باغ کی طرف متحرک کی۔ یوں اس مسلح تحریک کوئی اجتماعی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی حادثے کے طور پر شروع ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے باغ کی طرف آنے والی ڈوگرہ فوج پر دوتھان کے مقام پر حملہ کیا جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا جس میں پانچ مسلمان شہید ہوئے لیکن ڈوگرہ فوج کو بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ جب یہ واقعات ہوئے تو وہ سابقہ آفیسر جو پہلے ہی مسلح جد و جہد کو پروگرام رکھتے تھے انھوں نے عام سول آبادی جو امیر شریعت کے پے درپے ایجی ٹیشن اور احتجاجوں کی وجہ سے نڈراور بےخوف ہو چکی تھی سے مل کر باقاعدہ مسلح تحریک کا آغاز کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنتالیس سے پہلے ایک قائدانہ کردار ادا کرنے والے امیر شریعت کا سنتالیس میں کیا کردار تھا۔؟اس حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امیر شریعت ایک ایسی شخصیت تھی جو قائد تھی جس کا ریاست کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنا ایک ویژن اور سوچ تھی جو آپ کی سنتالیس سے پہلے کی گئی جد و جہد سے مکمل طور پر واضح ہے۔ لیکن بطور سیاسی لیڈرشپ آپ ریاست کے اندر اور ریاست کے باہر ہونے والے واقعات پرگہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اور بدلتی ہوئی سیاسی حالات اس طرف نشاندہی کر رہے تھے کہ اب دوہی آپشن بنتے جا رہے ہیں یا تو ریاست انڈیا کے پاس جائے گی یا ڈوگرہ راج مزید طوالت اختیار کرے گا۔ آپ کی ماضی کی سیاسی جدو جہد کا یہ اثر تھا کہ پرانی ریاست پونچھ کا تقریبا ہر شہری نڈر و بے خوف ہو چکا تھا اور اپنے حقوق کی خاطر سیاسی ہی نہیں بلکہ مسلح بھی ٹکرانے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ دوسری طرف سیکنڈ لائن کی سیاسی لیڈرشپ اور برٹش آرمی کے سابقہ فوجی آفیسران مسلح جد و جہد شروع کرنے کا تقریبا فیصلہ کرنے کے قریب تھے۔
اس صورتحال کے تحت آپ نے بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دینی تھی ایک طرف ڈوگرہ راج تھا جسکی حمایت آپ کسی صورت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف مسلح جدوجہد کے لئے آپ کے رفقاء، جانثاران سمیت برٹش آرمی سے ریٹائرڈ فوجی آفیسران اور سپاہی تیار بیٹھے تھے۔ آپ اگرکھل کر مسلح جد و جہد کا ساتھ دینے یا قیادت کا فیصلہ کرتے تو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی ڈوگرہ فوج جن کی ہٹ لسٹ پر آپ اور آپ کے رفقاء اور آپ سے منسلک ؑعام آبادی تھی کو ڈوگرہ نشان عبرت بنانے کے لئے وہی بد ترین تشدد کرتے جو انھوں نے جموں میں کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ دوسری طرف آپ اگر مسلح جد و جہد کا ساتھ نہ دیتے تو اس جد و جہد کے ناکام ہونے کے واضح چانسز تھے جسکے بعد دوبارہ کبھی یہاں کی آبادی کو ڈوگرہ راج سے نجات کا موقع نہ ملتا۔ لہذا ان زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے بطور لیڈر آپ نے سیاسی فیصلہ کیا اوربطور خود مسلح جنریل کے بجائے سیاسی لیڈر کے طور پر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی ترتیب دی۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ بطور سیاسی لیڈر عام پبلک چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم کو خون خرابے سے بچایا جائے اور تحریک کا رخ صرف ڈوگرہ مسلح فوج کی طرف ہی رکھا جائے۔ اسی سلسلے میں آپ نے اپنے گھر کو دارالامان قرار دیا جہاں کئی غیر مسلم جو غیر مسلح اور عام آبادی سے تعلق رکھتے تھے نے دوران مسلح تحریک پناہ بھی لی۔
۔
جبکہ
۔
دوسری طرف آپ نے مسلح جہادجس کا مقصد ریاستی تشخص برقرار رکھتے ہوئے ڈوگرہ کے ظلم و ستم سے نجات تھا میں عملی طور پر حصہ لینے کے لئے اپنے بھائی استاد علماء مولانا مفتی امیر عالم مرحوم جو ایک مستند عالم دین اور دیوبند سے فارغ االتحصیل تھے کو آگے کیا۔ جنہوں نے جہاد کا فتوی دیا اور دفعہ 144 کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی اور اس تحریک میں سردار عبد القیوم خان مرحوم کے شانہ بشانہ چلے۔ خود امیر شریعت کے وفادار جانثاران نے اپنے آپ کو منظم کیا اور کیپٹن نور حسین خان مرحوم کی قیادت میں ایک فورس بنائی جس نے جہاد میں عملی طور پر جانے سے پہلے باقاعدہ طور پر امیر شریعت کے سلامی بھی دی ( یہ واقعہ محمد یوسف خان مرحوم جو خوداس دستے کا حصہ تھے نے بتایا تھا آج ان کے بیٹے اور پوتے زندہ ہیں جن سے تصدیق لی جا سکتی ہے)۔ امیر شریعت کی اس حکمت عملی سے مسلح تحریک بھی کامیاب ہوئی اور یہاں کی عام آبادی چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم دونوں کسی بڑے خون خرابے سے محفوظ رہی۔

لیکن بد قسمتی سے جوں جوں تحریک آگے چلی اس تحریک کی قیادت جو اسوقت کی سیکنڈ لیڈرشپ کی پاس تھی اپنے کنٹرول میں نہ رکھ سکی جسکی وجہ سے ایک مکمل طور پر مقامی طور پر شروع کی گئی تحریک کو قبائلی یلغار کا رنگ دے دیا گیا اور ڈوگرہ اور انڈیا کو موقع ملا جنہوں نے فائدہ اٹھایا اور اسے ریاست پر غیر ریاستی حملہ سے تشبیہ دیتے ہوئے پہلے انڈیا کے ساتھ الحاق اور پھر انڈین افواج سرینگر اتاردی۔ معاملہ یو این او لے جائے گا جہاں اب تک رل رہا ہے۔ لیکن ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ امیر شریعت کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ پہلے سردار محمد ابراہیم خان نے ریاستی تشخص کی بات جسکی پاداش میں انھیں آزادحکومت کے قیام کے ساتھ ہی معزول ہونا پڑا اور اسی طرح آخر دم تک سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم ہمیشہ ریاستی تشخص کی بات کرتے رہے انھوں نے ہمیشہ الحاق پاکستان کی بات کی لیکن ساتھ ہی ساتھ ریاستی تشخص کی بھی بات کی۔ اب تنقید کے بجائے غورو فکر کرنے والوں کو سمجھ آ جانا چاہیے کہ الحاق اور ریاستی تشخص دونوں کا ایک ساتھ اظہار کا کیا مطلب ہے۔ الحاق کا مطلب قطع ضم ہونا لینا اپنے اکابرین کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔

No comments:

Post a Comment