Wednesday 6 September 2017

امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی


ایک مختصر ذکر اس  جدوجہد کے بارے میں جوپونچھ کے لوگوں کے تحفظ کے لئے تمام متصادم/مخالف قوتوں کے خلاف  اس شخص کی جانب سے کی گئی جو شیرپونچھ کہلایا گیا، شیر پونچھ امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی پونچھ کشمیر کا ایک ایسا ہیرو جسے دانستہ خارج از ذہن کیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از راجہ حبیب جالب چیرمین جموں و کشمیر ہیومین رائٹس کونسل انٹیلی جنس ونگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو اس جد وجہد (جو امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم نے کی)  کی کہانی کا احاطہ کرنے کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے لیکن میں مختصر طور پر آج کی نوجوان نسل کی آگاہی کے لئے لکھوں گا تاکہ وہ جان سکیں کہ یہی وہ لوگ تھے جو پونچھ کے لوگوں کے لئے آزادی لائےمولانا ہی وہ وفادار شخصیت تھی جو ایسے وقت میں کھڑی ہوئی جب پورا کشمیر غربت میں جکھڑا ہوا تھا، کوئی تعلیمی ادرے نہ تھے، کہیں روزگار کے مواقع نہ تھے، ٹیکسوں کی بھرمار تھی اور اس غربت اور ڈوگرہ راج سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
۔
مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم نارمہ راجپوت قبیلے کی ایک  فیملی مولوی راجہ محمد جنگباز کے گھر 1896 میں پیدا ہوئے۔اسوقت آپ کے قرب و جوار میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا اور آپ کے والد کے لئے یہ مشکل تھا کہ آپ کو دوردرازریاست پونچھ سے باہر تعلیم کے لئے بھیجیں ، لیکن عین اسی وقت اسی ایریا کی ایک اور اہم شخصیت مولانا عالم دین صاحب دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کر واپس کفل گڑھ آ چکے تھے اور انھوں نے کفل گڑھ میں ہی ایک تدریس گاہ شروع کر دی تھی، وہیں سے امیر شریعت نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، جلد ہی مولانا عالم دین صاحب کو اپنے اس طالب علم کی استعداد، دلیری اور بہادری کا اندازہ ہو گیا جسکی بنیاد پر انھوں نے اس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اس ایریا سے باہر جا کر اپنی تعلیم جاری رکھے جہاں کشمیر کے دوسرے لوگوں اور کشمیر کے حالات سے جاننے کے زیادہ مواقع ہوں، چنانچہ آپ نے گولڑہ شریف کا رخ کیا جہاں پیر مہر علی شاۃ صاحب سے ملے جنہوں نے آپ کو دیوبند جانے کا مشورہ دیا، چنانچہ آپ نے دیوبند کا سفر کیا اور کچھ عرصہ کے لئے وہاں رہے جہاں آپ نے کشمیر سے آئے دوسرے طالب علموں سے ملاقاتئیں کی جنہوں نے آپ کو کشمیر کے لوگوں کے بری حالت جو ڈوگرہ راج کی وجہ سے تھی کے بارے میں بتایا۔ جلد ہی امیر شریعت کو یہ احساس ہو گیا کہ لوگوں کی مدد اور ڈوگرہ راج کو روکنے کے لئے کچھ کچھ ضرور کرنا ہو گا۔
۔
جب مولانا واپس آئے تو آپ پیر مہر علی شاۃ صاحب سے ملے جنہوں نے آپ کو کہا کہ آپ تحریک کا آغاز اپنے قبیلے سے کریں اور پھر اسے دوسرے قبائل تک وسعت دیں تاکہ وہ بنیادی طاقت میسر ہو سکے جو لوگوں کے لئے لڑ سکے۔چنانچہ آپ واپس گھر آئے اور اپنی بنیاد بھٹی سے شروع کی جہاں آپ کی زمین بھی تھی۔بھٹی میں اسوقت ایک بزرگ جنہیں فقیر صاحب آف بھٹی کہا جاتا تھا رہتے تھے وہ پیدل حج کے سفر پر گئے اور جب واپس آئے تو اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی تھی۔ایک دن مولانا جھڑ سفر پر تھے تو وہاں کہ ایک طاقت ور شخص راجہ محمد شیر خان کو آپ نے چیلنج کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ دو گھنٹے تک کشتی ہوتی رہی اور کسی نےجب شکست تسلیم نہ کی تو تب فقیر صاحب آف بھٹی نے مولانا کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ زندگی میں آپ کو کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔وہ اپنے زمانے کے ایک بڑے ریسلر بھی تھے۔آپ نے پہلے پہل تعلیم ادارے اور مساجد بنوائیں شروع کیں تاکہ نوجوان نسل تعلیم حاصل کر سکے تب آپ نے تب آپ نے اپنی سیکورٹی فورس  جوتلوار اور رائفل( جو بارود والے پاوڈر سے چلتی تھی لیکن کافی مہلک ہوتی تھی اورعموما شکار کے لئے استعمال کی جاتی تھں) بردار تھی تیار کی۔ جلد ہی ایک منظم فورس جو آپ کے لئے لڑ سکے تیار ہو گئی تب آپ نے دوسرے قبائل کی طرف بھی رخ کیا۔ کرنل خان محمد خان اور مولانا غلام حیدر جھنڈالوی اہم شخصیات میں شامل تھیں جو ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑی رہیں۔آپ نے ایک مذہبی مدرسہ کفل گڑھ قائم کیا جو بعد میں ہاڑی گہل شفٹ ہو گیا اور جس کے منتظم آپ کے بیٹے مولانا مفتی قاضی بشیر احمد صاحب مرحوم بھی کافی عرصے تک رہے۔ اسی طرح آپ نے ایک مدرسہ فیض القرآن بیس بگلہ مولانا عبد الغنی مرحوم کی سرپرستی میں بنوایا اور چیڑان میں مڈل سکول سمیت کئی دوسرے تعلیمی اداروں کی بنیاد بھی آپ نے رکھی۔ 

عدالتی نظام
آپ کی خدمات اور کارناموں میں سے سب سے اہم غریب افراد کے لئے عدالتی نظام کا قیام تھا جس کے لئے لوگ پونچھ شہر تک سفر کر کے اپنے پیسہ ضائع کیا کرتے تھے۔آپ نے بنیادی طور پر ایک عدالتی نظام قائم کیا، جسکے ایک ملازم (نقارہ پکارنے والا) راجہ منا خان آف غنی آباد بھی تھا۔وہ ایک سیپرا تھا جسکے پاس ہمیشہ سانب ہوا کرتا تھا۔  طریقہ یہ ہوتا تھا جب مولانا تشریف لاتے تو یہ ملازم گھنٹی بجا کر لوگوں کو مطلع کرتا کہ عدالت شروع ہونے والی ہے چنانچہ عدالتی کاروائی شروع ہوتی اور ضابطہ کاروائی کے بعد فیصلے ہوتے  جو فائنل ہوتے تھے جن کا ماننا ہر ایک پر ضروری ہوتا تھاان کو علاقے کی حکمران کی طرح شمار کیا جاتا تھا۔چنانچہ ایسی طاقت کے ساتھ انھوں نے کشمیر کے لوگوں کے ساتھ تعلق استوار کیا۔انھوں نے گرد و نواح میں کشمیر کے مختلف لوگوں کو خط لکھے۔ کشمیر اور باغ کے زیادہ تر لوگوں نے بغیر کسی سوال کے آپ کو اندھے یقین کے ساتھ فالو کرنا شروع کر دیا۔ سردار محمد حسین خان آف دھڑیں، پیر سید اصغر علی شاہ صاحب آف سیری پیراں، سید حسن شاۃ گردیزی، راجہ اکبر منہاس اور باقی تمام افراد چاہے وہ نارمہ یا سدھن قبیلہ کے ہوں  نے بھی سب کے سامنے آپ کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا اور آپ کو پونچھ  کے لوگوں کا ایک متفقہ لیڈر بنا دیا۔جسکی وجہ سے آپ کی آواز پونچھ کے لوگوں کے مسائل کے حوالے سے مزید طاقتور ہو گئی۔ مولانا نے 1924 میں ایک آزاد ریاست پونچھ کی حمایت بھی کی لیکن بعد میں دوسرے کشمیری راہنماوں کی درخواست پر اس معاملہ سے علیحدہ ہو گئے۔ 
۔
جب ہاڑی گہل کے مقام پر ایک چھوٹی مسجد کو جلایا گیا تو آپ نے لوگوں کو لے کر پونچھ شہر کا رخ کیا۔ راستے میں مختلف قافلے آپ کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ غازی کشمیر فتح محمد کریلوی بھی تقریبا 400 افراد پر مشتمل قافلہ لے کرپونچھ شہر پہنچے اور پونچھ شہر میں اس احتجاج میں حصہ لینے والوں کے کھانے کا انتظام بھی کیا جس کا اظہار انھوں نے مولانا مفتی بشیر احمد صاحب کو خط لکھ کر بھی کیا۔ مولانا کی طاقت دیکھنے کے بعد راجہ جگدیو  اور سیشن جج محمد ایوب خان نے راجہ آف پونچھ کی طرف سے معذرت کی اور نئی مسجد بنوانے کے لئے معاوضہ دیا۔ ڈوگرہ راج کی پونچھ میں یہ ایک بڑی شکست تھی۔ 
۔
توہین قرآن

پونچھ جیل میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بارے میں تو کئی لوگوں کو پتہ تھا لیکن ایک دن جیل کے ڈاکٹر رام سنگھ نے قیدیوں کو قرآن مجید پڑھتے دیکھا تو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا، رپورٹ کرنے والے بتاتے ہیں کہ کئی قیدی قتل بھی کیے گئے۔مولانا اس واقعے کے خلاف ایک بڑا قافلہ لے کر پونچھ پہنچے اور  ڈاکٹر رام سنگھ کو فارغ کرنے تک واپس جانے سے  انکار کر دیا۔آخر کار راجہ جگدیو سنگھ نے سمجھوتے کے لئے درخواست کی، پنڈت ناتھ بزاز، بخشی غلام محمدنے بھی   مطالبہ کیا کہ  مولانا کی ڈیمانڈ کے مطابق معاملے کا حل کیا جائے، چنانہ ڈاکٹر رام سنگھ نوکری سے برخاست کیا گیا اور 
ایک مرتبہ پھر مولان کی مہارجہ کے خلاف جیت ہوئی۔
  آپ  ریاست کے مسلمان ملازمین کے حقوق کے لئے بھی پونچھ شہر گئے جن کو ملازمتوں سے فارغ کر کے انکی جگہ ہندو ملازمیں بھرتی کیا گیا تاکہ مسلم آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اور 1945 میں گاو کشی کیس میں پولیس کی طرف سے چوکی کوٹیڑی سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر تشدد کے حوالے سے آپ سردار محمد حسین خان دھری کی درخواست پر کھڑے ہو گئے ، ہزاوروں لوگ کفل گڑھ، بھٹی، غنی آباد، جھڑ، تھب اور دوسرے علاقوں سے باغ پہنچے جہاں ایک تاریخ ساز تقریر مولانا نے کی جہاں آپ نے بیلی رام تحصیلدار کو دیکھا تو کہاں اگر گائے آپ کی ماں ہے تو بیل آپ کا باپ ہونا چاہیے۔ اس نے مولانا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے فالورز کی ایک طاقت ور فورس موجود تھی جس نے  آپ کی حفاظت کی۔سردار مختار خان ایڈوویکیٹ جو اس گاؤ کشی کے حوالے سے منعقدہ ایک جلواس میں شریک تھے کہتے ہیں کہ مولانا گاو کشی کے حوالے سے ایک جلسہ کے لئے ہورنہ میرہ سے کوٹیڑی نجم خان پہنچے جہاں مہاراجہ نے مولان محمد عبداللہ کفل گڑھی اور مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی گرفتاری کے لئے ایک بڑی فوج اور نائب وزیر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سردار عبد الحکیم خان کو بھیجا،جو مہاراجہ پونچھ کے ایک سابقہ اے ڈی سی صوبیدار محمد خان سے ملےجنہوں نے انھیں بتایا کہ مولانا گفتگو کے بعد گرفتاری دے دیں گے لیکن اسی دوران مولانا اس ایریا سے چلے گئے کیونکہ ان کے فالورز گرفتاری دینے پر آمادہ نہ تھے اور ہم کوئی خون خرابہ نہیں چاہتے تھے چنانچہ مولانا باغ پہنچے اور انھیں کوئی بھی چھونے کی جرآت نہ کر سکا کیوں کہ ان کے قبیلے کے لوگ ان پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ 
۔
مولانا نے لوگوں کا اتنا بے خوف بنا دیا تھا کہ وہ مہاراجہ کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں چنانچہ اس دور کے اختتام پر ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں نمائندگی کے لئے کرنل خان محمد خان اپنے قبیلے کے ایک نئے فرد سردار محمد ابراہیم خان  جنہوں نے ابھی بیرسٹری کی تعلیم مکمل کی تھی کو لے کر بطورامیدوار قانون اسمبلی مولانا کے پاس تشریف لائے اور درخواست کی کہ آپ سردار محمد ابراہیم خان پر اپنا ہاتھ رکھیں کیونکہ مولانا کی صحت خود اب اتنی اچھی نہیں تھی اور کرنل خان محمد خان اس تحریک کے لئے نئے اور تازہ خون کی نمائندگی چاہتے تھے چنانچہ مولانا نے سردار محمد ابراہیم خان پر دست شفقت رکھا اور انکی سپورٹ کشمیر اسمبلی کا ممبر بننے کے حوالے سے کی۔سردار محمد ابراہیم خان ہمیشہ مولانا کی اس حمایت پر ان کے مشکور رہے اسی طرح مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا مفتی امیر عالم صاحب مرحوم جنہوں نے پہلے پلندری میں مدرسہ تعلیم قرآن( جس کے منتظم آجکل شیخ الحدیث مولانا سعید یوسف صاحب ہیں) کی بنیاد رکھی نے بھی اس تحریک اور جد و جہد  کا ساتھ دیا جو مہاراجہ کے خلاف کی گئی۔
آج یہ نوٹ کرتے ہوئے حیرانگی ہو رہی ہے کہ باغ کے وہ افراد جو مہارجہ کے خلاف لڑے وہ  مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کی دفاعی فورس سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن میں صوبیدار علی اکبر خان المعروف پول صاحب،حویلدار میجر سلیمان خان فاتح نانگا پیر،صوبیدار راجہ علی بہادر خان فاتح ٹنگیاٹ اور دیگر ہزاروں افراد شامل ہیں جو مولانا کی دفاعی فورس سے تعلق رکھتے تھے اور پونچھ سیکٹر میں مہاراجہ کے خلاف لڑے جیسے مجھے صوبیدار علی اکبر خان صاحب نے بتایا کہ امیر شریعت آنے والے صورت حال سے آگاہ تھے اس لئے انھوں نے ہمیں تیار رہنے کا کہا ، ہم نے ہر گاؤن میں دفاعی کمیٹیاں بنائیں اور ان کی خواہشات پر عمل کیا۔ اسوقت کوئی نیلہ بٹ کی سٹیٹمنٹ نہ تھی اور کسی نہ نیلہ بٹ کوفالو نہیں کیا تھا ہم لڑنے کے لئے تیار تھے اور ہم ڈوگرہ کے خلاف فیس ٹو فیس مولانا کی ہدایت پر لڑے۔
۔ 
یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کے قرار داد الحاق پاکستان پاس کرنے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں تھا یہ قرارداد پہلے ہی سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سرینگر میں پاس کی گئی تھی اور یہ بھی ہے کہ کوئی حقیقی طور پر نہیں جانتا کہ نیلہ بٹ پر اسوقت کیا گیا کہ کیونکہ وہاں ڈوگرہ کی کوئی فوج نہیں تھیں بلکہ چند پولیس آفیسر اور دیگر افراد تھے چنانچہ نیلہ بٹ کے مقام پر کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی سوائے راجہ شیر زمان خان کی شہادت کے۔
یہ ایک مذاق ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب نے آسمان کی طرف گولی چلائی اور تحریک آزادی کے لئے جنگ کا آغاز کیا ہمیں اس پر ہنسنا ہی ہے۔ پونچھ کے ہیرو امر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی مرحوم تھے جنہوں نے زندگی کی آخری لمحے تک ایک پیسہ بھی اپنی خدمات کے عوض مفاد حاصل نہیں کیا۔ وہ حقیقی طور پر ایک ہیروتھے جنہوں نے سردار محمد ابراہیم خان کی غیر قانونی معزولی کے خلاف بغاوت کی اور باغی حکومت بنائی جب تک کے آزاد کشمیرکی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کیا گیا۔چنانچہ نیلہ بٹ کہانی محض من گھڑت سٹوری ہے حکومت پاکستان کے سخت ایکشن کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان نے یہ بتانے کےلئے جگہ بنائی کہ وہ اوجڑی کیمپ کے وفادار ہیں اور اسطرح کشمیر کی تمام تاریخ مسخ کر دی گئی۔ سردار محمد عبدالقیوم خاں صاحب نے حکومت پاکستان کے غیر قانونی ایکشن کے خلاف کی گئی بغاوت کوپاکستان کی با اختیار آرمی کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک موقع کے طور پر استعمال کیااور ایک مخصوص مقام کے علاوہ دولت اور طاقت کمائی اور تحریک آزادی کشمیر کی جدو جہد کی تاریخ کو مسخ کیا۔ اور تحریک ازادی کی جد و جہد  کے اصل ہیرو مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی، سردار محمد ابراہیم خان  اور درج ذیل افراد ہیں ۔

 حقیقی مجاہد اول کرنل مرزا حیسین خان آف گلگت جنہوں نےتمام شمالی علاقہ آزاد کروایا۔کیپٹن حسین شہید آف راولاکوٹ ایک پونچھ کے ہیرو۔ کرنل راجہ نور حسین خان ایک پونچھ سیکٹر کے ہیرو۔۔۔حویلدار میجر راجہ سلیمان خان فاتح نانگا پیر۔۔۔صوبیدار علی اکبر خان المعروف پول صاحب جنہوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ دھیرکوٹ اور نیلہ بٹ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا،کرنل منچا خان،کرنل خان آف منگ، میجر ایوب خان آف باغ،پیر اصغر علی شاۃ صاحب آف سیری پیراں،سردار محمد عبد القیوم خان بطور  آپریشنل کمانڈر آف سپلائی لائن باغ ( اسلحہ اور افراد)یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ مولانا عبد اللہ کفل گڑھی مستقل طور پر اسلحے اور مجاہدین کی فراہمیابی کے لئے پاک آرمی آفیسرز کے ساتھ رابطے میں تھے وہ اس سلسلے میں اپنے قبیلے کے مختلف گاوں میں پیغامات بھیج رہے تھے کہ لوگ فرنٹ لائن پر جائیں۔میں مستقبل میں کچھ مزید واقعات آپ کے سامنے لاوں گا۔ 
(B.A.LL.B (Pb)راجہ حبیب جالب
D.LL.H(chi) D.M.A.L(Gold-medalist)  







No comments:

Post a Comment