Saturday 16 September 2017

جب امیدوں کا فرشتہ امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کے نام سے پہنچا

 جب امیدوں کا فرشتہ مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کے نام سے پہنچا تو اس نے ریاست کی زندگی میں ایک تبدیلی برپا کی، ایک تاریخی حقیقت جسے عوام کو ضرور معلوم ہونا چاہیے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
از راجہ حبیب جالب
(B.A.LL.B (Pb)
D.LL.H(chi) D.M.A.L(Gold-medalist)
(KPSIچیرمین جموں و کشمیر ہیومین رائٹس کونسل انٹرنیشنل ونگ (سیکرٹری جنرل ۔
.

امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ گڑھی سے متعلق لکھے گئے میرے پہلے کالم کو کافی سہرایا گیا اور پونچھ سے تعلق رکھنے والے گئی لوگوں نے مجھے مزید معلومات بھی بھیجی اور درخواست کی کہ اس دورکی صورتحال کے متعلق مزید تفصیلات بھی مہیا کروں۔ ہم جب بھی سیاسی شخصیات کے متعلق بات کرتے ہیں تو ہم مکمل طور پر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس وقت غالب حالات کیا تھے۔ جب مولانا صاحب (تعلیم مکمل کرنے کے بعد) واپس ( 1920 کے قریب) گھر پہنچے ، اسوقت کوئی پاکستان نہیں تھا، برٹش حکمرانی کا دور تھا اور کشمیر (ریاست جموں کشمیر) میں ڈوگرہ راج تھا وہ ہر وہ طریقہ (گر)استعمال کیا کرتا تھا جس سے کشمیری مسلمانوں کو غریب اور خستہ حال رکھا جا سکے،لیکن کشمیر(ریاست جموں کشمیر) کے دوسرے خطوں کے مقابل پونچھ کے مسلمانوں کے حالت زیادہ مخدوش تھی جہاں(ریاست پونچھ) ڈوگرہ ٹھاکر فیملی کی حکومت تھی، یہ ایک جزوی آزاد ریاست تھی جس تک رسائی بھی آسان نہ تھی یہاں صرف مہاراجہ کشمیر جو مکمل طور پر آزاد تھا ، کا قانونی لحاظ سے اختیار صرف مہاراجہ آف پونچھ کے دفاع کی حد تک ہی سمجھا جاتا تھا۔اس بات کا تذکرہ حیران کن ہے کہ اسوقت کوئی سڑکیں نہ تھیں، چند سکول تھے، کوئی میڈیکل سہولیات نہ تھی مشکل سے کوئی تجارتی راستئہ تھا ، لوگ انڈیا اور کشمیر کے دوسرے علاقوں تک جانے کے لئے کوہالہ تک جایا کرتے تھے، زیادہ تر لوگ پیدل ہی سفر کرتے تھے اورجو لوگ کچھ دولت رکھتے تھے گھوڑے استعمال کرتے تھے اور ان افراد کو مراعات یافتہ تصور کیا جاتا تھا۔
۔
ان کے پاس صرف چند پرائمری سکول ہی تھے اور پڑھنے کے لئے کتابوں کا حصول تقریبا نا ممکن تھا  کتابیں مہیا نہیں کی جاتیں تھیں اورعام لوگ اپنے بچوں کے لئے کتابیں خرید نہیں سکتے تھے۔صرف ایک ہائی سکول پونچھ شہر میں تھا۔ راجہ آف پونچھ کو صرف اپنی آمدنی کی ضرورت کا خیال ہوتا تھا ، اس نے صرف ٹیکس لیتا ہوتا تھا اپنی دولت بنانے کے لئے اور یہان کے مسلمانوں کو غریب رکھا ہوا تھا، صرف وہ افراد دولتمند تھے جو یا تو کشمیری پنڈت تھےیا ڈوگرہ راجپوت۔ انتظامیہ کی سینئر نوکریوں جیسے سیکورٹی اورمحصولات اور عدالت میں فیملی ممبر کو دی گئی تھیں، صرف چند سینئرز پوسٹوں پر مسلمانوں کو بھی یہ باور کروانے کے لئے تعینات کیا ہوا تھا کہ مہاراجہ سب سے برابری کی بنیادی پرمعاملہ کرتا ہے لیکن  حقیقی طور پر جو لوگ فائدہ اٹھا رہے تھی وہ صرف ہندو ہی تھے۔راجہ صرف ایک وزیر کے ساتھ حکومت کر رہا تھا جو ریاست کی سکیورٹی کی نگرانی کرتا تھا، عدالت کا ایک چیف جج ہوتا تھا،جو ڈسٹرکٹ جج کی طرح کا ہوتا تھا اور عموما اسے چیف جج کہا جاتا تھا اسکا فیصلہ حتمی ہوتا تھا کہیں کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی تھی سوائے مہاراجہ کے پاس جسکا فیصلہ فائنل ہوتا تھا۔محمکہ تعلیم کی نگرانی محمکہ تعلیم کے چیف آفیسر کرتا تھا، چیف فارسٹ آفیسر ہوتا تھا، چیف ریونیو آفیسر ہوتا تھا اور ان سب کے اوپر وزیر ہوتا تھا جو براہ راست مہاراجہ کو جوابدہ ہوتا تھا۔ اسطرح کبھی اگر کوئی چھوٹا موٹا کیس بھی ہوتا تو لوگوں کو پونچھ کا سفر کرنا پڑتاتھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ موسم سرما میں بھی لوگوں کے پاس سفر کرنا پڑتا اور انکے پاس پہننے کے لئے جوتے نہیں ہوتے تھے اور لوگ پول( گھاس سے بنایا گیا جوتا) بطور جوتا پہننے کے لئے تیار کیا کرتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے کیس نئی نسل تک چلتے تھے اور ہندووں وکیل اپنے پیسے بناتے رہتے ، ایسے ہی ایک کیس میرے پڑدادا کا تھا جس نے بیس سال تک لئے ،کیس جیتنے کے بعد جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا پڑوسی جووقت ضائع کرنے کے ساتھ کافی پیسہ بھی خرچ کر چکا تھا اور غریب بھی تھا تو تب انھوں نے جج سے کہا کہ یہ زمین اسے دے دیں یہ مجھ سے زیادہ قابل رحم ہے۔ بعد اذاں کیس جیتنے کے بعد زمین واپس دینا ہماری فیملی میں ایک مذاق بن گیا تھا۔ یہ چیزیں واضح کرتیں ہیں کہ کیسے مہاراجہ لوگوں کو کنڑول کیا کرتا تھا، اسکے علاوہ مہاراجہ نے ہر گاؤن کا ایک چیف جسے نمبردار کہا جاتا تھا رکھا ہوتا تھا ، ایک سیکورٹی چوکیدار رکھا ہوتا تھا جو تنخواہ لوگوں سے اکھٹے کئے گئے محصولات سے ہی لیتا تھا ۔زمین پر ٹیکس (مالیا) ایک اور ظالمانہ ٹیکس تھا جو اسوقت گاؤں کے لوگوں سے لیا جاتا تھا، انھیں اپنی زمین بھی اس ٹیکس کی ادائیگی کے لئے دینے پڑتی تھی، حتی کہ کھڑکیوں اور دروازوں پر بھی ٹیکس تھے۔ اسوقت کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس صورتحال کے حوالے سے آواز اٹھا سکے یہاں تک کے سرکاری آفیسران اور پڑھے لکھے افراد بھی اسی صورت حال میں جیتا ہوئے دیکھ رہے تھے۔
۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی صرف زیادہ مفاد کے حوالے سے مہاراجہ کو قائل کرنے کی طرف توجہ کیے ہوتے تھے کوئی بھی مہاراجہ کے خلاف سٹینڈ لینے کی ہمت نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ مہاراجہ کے ری ایکشن سے واقف تھے، لہذا اس حوالے سے ان کو مہاراجہ سے کچھ کہنا محض ایک شریفانہ یاد دہانی کے طور پر ہی ہوتا تھا کہ ہم بھی آپ کا سبجیکٹ ہیں۔لیکن پونچھ میں ایک جری اور خدا خوفی رکھنی والے شخصیت آئی جس نے کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر مہاراجہ کو بتایا کہ عام عوام کے ساتھ ظلم کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ شخصیت ایک بہترین منتظم تھی، یہ حیران کن ہے کہ اس شخصیت کے پاس ایک منصوبہ تھا، وہ جانتی تھی کہ اس نے مہاراجہ پر لوگوں کے انحصار کو کسطرح کم کرنا ہے۔ اس شخصیت نے لوگون کو یہ باور کروایا کہ وہ مہاراجہ حکومت کے اداروں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں اسنے لوگوں کے اعتمادکے لئے ایک متبادل انتظامی نظام بھی لایا۔ عدالتی نظام انقلابی اقدامات میں سے سب سے اہم نظام تھا۔میرے لئے یہ حیران کن ہے کہ اسکی ایک علاقائی ریاست تھی،اس نے پہلے عدالتی منصف کی پالیسی شروع کی اور ہر گاوں میں عدالت لگائی، اس کے فیصلہ جات کو کوئی چیلنج نہیں کرتا تھا۔ اس نے شادی و طلاق کے جھگڑوں ،وراثت، زمین کی شکایات،زمین کے جھگڑے اور دیگر تمام کیسزکے فیصلہ جات کیے، اس کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد سے زائد افراد نے مہاراجہ کی عدالتوں میں جانا ترک کر دیا تھا۔یہ بھی حیران کن ہے کہ پہلے پہل اس کی ایک مہر ہوتی تھی جس پر مولانا عبداللہ کفل گڑھی نارمہ راجپوت لکھا ہوا تھا لیکن بعدازاں جب ان کی عدالت کا دائرہ اختیار پونچھ کے دیگر علاقوں تک پھیلا تو انھوں نے یہ مہر استعمال کرنا ترک کر دی اور صرف کورٹ کے نام سے مہر استعمال کرنی شروع کی۔جیسا کہ آپ کے ایک مضبوط سپورٹر راجہ اکبر منہاس صاحب مرحوم نے مجھے اسوقت بتایا جب طالب علمی کی زندگی میں باغ تھا کہ مولانا ایک تیز چلنے والے گھوڑے پر سفر کیا کرتے تھے اور جب آپ کسی گاوں سے گزرتے تو لوگ آپ کے پاس کھڑے ہو جاتے اور درخواست کرتے کہ ہمارے جھگڑون کا فیصلہ کریں، وہ گھوڑے سے اترتے ،عدالتی ملازم کو کہتے دوسرے فریق کو بھی طلب کیا جائے، اور یوں عدالت شروع ہو جاتی، وہ کاغذ نکالتے اور ایک فریق سے شواہد لیتے اور پھر دوسری پارٹی کے پاس جاتے اس سے شواہد لیتے پھر دونوں فریقین کو بلاتے اورفیصلہ سناتے۔ ان کے فیصلے پر کوئی معترض نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ  پونچھ کے اسوقت کے لوگوں کے دلوں کے حکمران تھے، مہاراجہ ممکن ہے اپنی طاقتور فوج کے ذریعے حکومت کر رہا تھا لیکن مولانا اپنی روحانی طاقت سے حکمران تھے، وہ ایک ولی تھے،ایک ایسی شخصیت جس کا سامنے کرنے کی کوئی جرآت نہیں کرتا تھا، جب وہ کسی معاملے کے حوالے سے فیصلہ کرتے تو ان کا فیصلہ فائنل تصور کیا جاتا تھا، اسی (نظام انصاف) طرز پر انھون نے پھر تعلیمی نظام شروع کیا اور عام لوگوں میں ایک انقلاب بھرپا کیا۔
۔
عام افراد کی بے عزتی اور تذلیل:۔ 
۔
 جس چیر نے حالات کوخراب بنایا وہ تھا پبلک میں تذلیل کرنا، جیسا اگر کوئی گائے ذبح کرنے کے بارے مین رپورٹ کرتا تو لوکل ایجنٹ مہاراجہ کو ان افراد سے متعلق عموما اطلاع دیتے تھے جن کے گاوں کے نمبردار یا سیکورٹی چیف سے اختلاف ہوتے تھے تو دوسرے دن ہی پولیس مقامی ہندوون کے ساتھ پہنچ جاتی ان افراد کے چہرے پر سیاہ رنگ کر کے گدھے پر بٹھا کر پورے گاوں کا چکر لگوایا جاتا انھیں مارا پیٹا جاتا انھیں گالیاں دی جاتی اور ان افراد کوبقیہ پوری زندگی علیحدگی میں گزارنا پڑتی تھی۔ کوٹیڑی نجم خان، جہان لوگوں کی اتنی زیادہ تذلیل کی گئی کہ انھوں نے مولانا سے درخواست کی کہ اس حوالے سے کچھ اقدامات کریں، مولانا نے بھٹی ، جھڑ اور دوسرے علاقوں میں پیغام بھیجا کہ لوگ باغ پہنچیں، وہ لوگ مولانا کے مضبوط ساتھی تھے جو مولانا کے سیکورٹی کے محافظ تھے، جو تلواروں اور شکار کرنے والی بندوقوں کے ساتھ تھے، جب تک مولاناباغ پہنچتے اسوقت تک مہاراجہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرادر عبد الحکیم خان اور نائب وزیر لالہ رام روہتھ کو اپنی پیرا ملٹری فوج کے ساتھ گرفتاری کے حکم کے ساتھ بھیج چکا تھا۔یہ عہدیداران اپنی مکمل تیاری کے ساتھ باغ آئے تھے کیونکہ مہاراجہ آف پونچھ کا حکم تھا کہ مولانا کو گرفتار کرنا ہے زندہ یا مردہ لیکن مولانا کے محافظین نے ان کی حفاظت کی اور ان کے قریب بھی آنے کی کی کسی نے جرآت بھی نہ کی۔یہ دو افراد نے بتایا ،راجہ اکبر منہاس صاحب ( جو کہ باغ شہر کے ایک کامیاب تاجر تھے) اور راجہ قاسم خان آف ہولڑ(جو مولانا کا لاؤڈ سپیکر جانے جاتے تھے) جو بلند آواز میں لوگوں کو باغ پہنچنے کا کہا کرتے تھے کیونکہ اسوقت کوئی دوسرے ذریعہ مواصلات نہ تھا، وہ بلند آواز تھے اور باغ کے دوسرے گاون کے لوگوں کو بھی بلند آواز میں باغ پہنچنے کے لئے کہتے تھے،دونوں نے مجھے بتایا کہ مولانا نے ہزاروں لوگوں سے اپنا خطاب مہاراجہ آف پونچھ کی مذمت کے ساتھ ختم کیا تو اپنے گھوڑے کی طرف جھڑ، غنی آباد اور بیس بگلہ وغیرہ کے درجنوں افراد کے ساتھ بڑھے۔پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ مولانا پرفائر کریں اس سے پہلے کہ ان محافظ ان کے اردگرد جمع ہوں اور وہ یہ جگہ چھوڑ کر چلیں جائیں، چنانچہ انھوں(پولیس) نے فائر کرنے کے لئے بندوقیں تیار کی ہوئین تھیں ، مولانا کے ہاتھ سے لہراتی ہوئی تلوار گری اور کوئی بھی فائر نہ کرسکا۔پولیس والوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پہچان ہی نہ سکے کیونکہ انھیں دو مولانا دو مختلف گھوڑوں پر دکھائی دیئے۔ یہ ڈوگرہ راج کی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج تھا جیسا کہ مولانا جانتے تھے وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ پونچھ سے باہر کسی قسم کی مدد حاصل کر سکیں، لیکن ان کی باجرات کوشش کی وجہ سے   کشمیر کے مختلف حصوں لوگ (اپنے حقوق کے لئے) کھڑے ہوئے، مولانا پونچھ اور کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک امید کا فرشتہ بن گئے۔
۔
 جو چیز امیر شریعت کو منفرد اور ممتاز بناتی ہے وہ ان کا( مہارجہ کے خلاف) سٹینڈ لینا تھا،آپ نے پونچھ کے لوگوں کو اپنی قیادت کی چھتری تلے منظم کیا اور پونچھ کے لوگوں کو یہ باور کروایا کہ مہاراجہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، اسے شکست دی جا سکتی ہے اور مہاراجہ کے علاوہ ریاست میں دوسرے لوگ بھی ہیں،جو اسی ریاست کے سٹیٹ سیبجکیٹ کے ساتھ شہری ہیں،اور ان کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں جیسے مہاراجہ کے، اور مسلمانوں کے بنیادی تعلیمی ادارے بھی ہونے چاہیے، ان پر بھی ٹیکس کم ہونے چاہیے، انصاف تک ان کی رسائی بھی آسان ہونے چاہیے اور انھوں نے یہ باور کروایا کہ ان کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ چھوٹی سے ریاست پونچھ کہ اندر کوئی مذہبی سکالر گائے کہ گوشت پر پابندی کو چیلنج کر سکتا تھا، مولانا نے یہ چیلنج کیا بغیر کسی خوف کہ مہاراجہ کی فوج انھیں قتل کر دے گی۔ انڈیا میں تین سو ملین سے زاہد مسلمان ہیں برائے نام جمہوریت اور آزادی رائے بھی ہے لیکن کوئی ایک بھی سکالر نہیں اٹھا اور گائے کا گوشت کھانے پر دس سال کی سزا کو چیلنج نہیں کیا۔یہی وہ چیزیں ہیں جو امیر شریعت مولانا محمد عبداللہ کفل گڑھی کو شیرپونچھ، ایک ہیرو اور اس تحریک آزادی کی کاوش کا بانی بناتی ہیں جوپونچھ کی بنیادی کمیونٹی کے منظم لوگوں کے تعاون سے کی گئی۔جس نے مولانا کو پونچھ کے لئے ایک فرشتہ ثابت کیا،۔ ان کے بے خوف تقاریر، اور انکی مذہبی اور دوسرے لوکل سکول کے حوالے سے انتظام، ان کا بے خوف ہو کر مہاراجہ راج کو چیلنج کرنا جب پورا کشمیر(ریاست جموں کشمیر) ڈوگرہ کی غلامی میں تھا، نے کشمیریوں کے لئے یہ ثابت کیا کہ ہر دور میں ہمیشہ یزید کے مقابلے میں ایک حسین ہوتا ہے۔ سردار محمد حسین دھڑے، پیر سید اصغر حسین شاہ صاحب آف سیری پیراں، اور راجہ اکبر مہاس مرحوم آف باغ کے کہنے کے مطابق مولانا ایک ایسی معجزاتی شخصیت تھیں جس نے ایک خاص مقصد لئے خطے کی تاریخ کو بدل ڈالا۔، 











No comments:

Post a Comment